Monday, April 15, 2013

پہچان


 


اپریل پندرہ، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تینتیس
  

پہچان


کیلی فورنیا میں صنوبر کے ایسے درخت موجود ہیں جن کی عمریں چار سے پانچ ہزار سال ہیں۔ اس دنیا میں انسان کی تحریر شدہ تاریخ بمشکل تین ہزار سال پرانی ہے۔ صنوبر کے ان درختوں نے اس پوری تاریخ کا مشاہدہ کیا ہے۔ عقیدہ، نسل، زبان، اور جغرافیاءی تعلق؛ پہچان کے وہ طریقے جن پہ انسان فخر کرتا ہے، صنوبر کے اند درختوں نے ایسی پہچانوں کو بنتے اور اپنی ہءیت تبدیل کرتے دیکھا ہے۔ سنہ سینتالیس میں پنجاب کی تقسیم کے وقت کی قتل و غارت گری کے متعلق غور کیجیے۔ صنوبر کے یہ درخت یہ سوچ کر کتنا محظوظ ہوتے ہوں گے کہ ابھی چند سو سال ہی تو ہوءے ہیں کہ تم سب ایک طرح کے عقیدے رکھتے تھے، پھر ایک نیا مذہب بنا، کچھ لوگ اس مذہب کے ساتھ ہوگءے اور سکھ کہلاءے، تم میں سے دوسرے مسلمان ہوگءے، اور اب یہ عالم ہے کہ تم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو۔ تم کیوں نہیں سمجھتے کہ جس پہچان پہ ایک دوسرے سے لڑے جا رہے ہو، مرے جا  رہے ہو، اسے بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی تو ہوءے ہیں۔  عقیدے کی پہچان کے ساتھ ساتھ نسلی، لسانی، اور جغرافیاءی تعلق کا بھی یہی ماجرہ ہے۔ یہ ساری پہچانیں مستقل تبدیل ہو رہی ہیں۔ لوگ نقل مکانی کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں، اور پھر وہ نیا علاقہ، نیا ماحول، نءے موسم ان کو نسل در نسل تبدیل کرتے جاتے ہیں۔ اسی طرح زبانیں بھی مستقل بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن انسان کی زندگی بہت مختصر ہے۔ اور اس مختصر زندگی میں اسے اپنی پہچان سے متعلق ہر چیز ساکت نظر آتی ہے۔ وہ اپنی پہچان سے چمٹا رہتا ہے اور اگر اسے اپنے آس پاس چیزیں تبدیل ہوتی نظر آءیں تو اسے بہت برا لگتا ہے۔  
جنوبی ایشیا میں دو طرح کی سیاست کی جاتی ہے۔ ایک سیاست وہ ہے جو طبقاتی تفریق کو بنیاد بناتی ہے۔ جو کہتی ہے کہ غریب کا کوءی عقیدہ نہیں ہوتا، اس کی کوءی نسل، کوءی زبان نہیں ہوتی، اس کا کوءی جغرافیاءی تعلق نہیں ہوتا۔  ہر جگہ، ہر زبان بولنے والے، ہر عقیدے کے غریب اور کمزور ایک طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور دوسرے لوگ جو طاقتور ہیں ان پہ ظلم کرسکتے ہیں، کرتے ہیں، اور کرتے رہیں گے، جب تک کہ غریب متحد ہو کر ظلم کے خلاف آہنی دیوار نہ بن جاءیں۔ دوسری طرح کی سیاست پہچان کی سیاست ہے۔ یہ سیاست کہتی ہے کہ ایک عقیدے کے لوگ یا ایک زبان بولنے والے یا کسی خاص جگہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک گروہ ہیں اور انہیں دوسرے گروہ یا گروہوں سے خطرہ ہے۔ پاکستان پہچان کی سیاست کی ہی پیداوار ہے۔ پھر اس نءے ملک نے اپنے قیام سے پہچان کی سیاست کے دوسرے کھلاڑیوں کو متحرک کیا۔
سنہ سینتالیس میں قیام پاکستان سے ان علاقوں کا جو اس وقت پاکستان میں ہیں آبادی کا تناسب تبدیل ہونا شروع ہوا۔ ایک طرف مقامی سکھ اور ہندو آبادی کو ڈرا دھمکا کر ملک بدر کیا گیا اور دوسری طرف ہندوستان میں ڈراءے دھمکانے جانے والے لوگ اور وہ جو بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں تھے، اس نءے ملک میں آگءے۔ مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب آنے والے اپنے ساتھ پنجابی کے نءے لہجے لاءے مگر زبان کی یکسانیت کی وجہ سے مقامی آبادی میں گھل مل گءے۔  سندھ میں آنے والے مہاجر ریل گاڑیوں سے آءے اور ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ آباد تمام بڑے شہروں میں بس گءے۔ راتوں رات کراچی اور حیدرآباد کی آبادی کا نقشہ بدل گیا۔ اس بدلتی صورتحال کو دیکھ کرسندھی راہ نما ءوں کے پاءوں تلے زمین نکل گءی۔ ان کو اندازہ ہوا کہ وہ اپنی ہی دھرتی پہ اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔ اور اسی احساس سے سندھ قوم پرستی کی بنیاد پڑی۔ کہ نءے ملک کی نءی لسانی پہچان سے اس پرانے گروہ کی پہچان مجروح ہورہی تھی۔ پہچان کی ایسی ہی سیاست بلوچستان میں بھی کی جاتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ہمارا علاقہ اپنے طور پہ ایک الگ ملک ہوتا تو ہم اپنی زبان اور طور طریقوں کے ساتھ آرام سے رہتے، اپنے سامنے اپنی پہچان تبدیل ہوتے نہ دیکھتے۔ اور پرانی دنیا میں ہر بیس میل کے فاصلے پہ لوگوں کی ایک جدا علاقاءی پہچان ہے۔ وہ اپنی اس پہچان سے محبت کرتے ہیں اور اسے اپنی آنکھوں کے سامنے تبدیل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ یورپ سے درآمد شدہ ریاست اور قوم کے تصورات ایسی پرتنوع علاقءی پہچانوں کو مسخ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔